حدیث عشق

ساخت وبلاگ
صادق آل محمد علیہ السلامتحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی امام جعفر صادق علیہ السلام ۱۷  ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن ۸۴ ھ میں پیدا ہوئے۔آپ کی مشہور ترین کنیت ابو عبد اللہ اور معروف ترین لقب صادق تھا ۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت " ام فروہ " تھی ۔یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا م کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ امام صادق علیہ السلام نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں ‎سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔  آپ نےنصف زمانہ اپنے جد بزرگوار اور پدر گرامی کی تربیت میں گزارا ۔یہ قیمتی زمانہ آپ کے لئے خاندان وحی سے سے علم و دانش، فضیلت و معرفت الہی کسب  کرنے کا بہترین موقع تھا ۔ امام علیہ السلام   اسلامی اخلاق اور انبیائی فضائل کے مکمل نمونہ تھے آپ کا ارشاد ہے {کو نوادعاۃ الناس بغیر السنتکم } لوگوں کو بغیر زبان کےاپنے عمل سے دعوت دو۔ آپ  حلم ،برباری ،عفو درگزر کےپیکر تھے۔حاجت مندوں کی مدد کرنے کو باعث افتخار سمجھتے تھے ۔ امام علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت کو نمایاں کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ آپ کا سخت ترین دشمن منصور دوانقی جب آپ کی خبر شہادت سے مطلع ہوا تو اس نے بھی گریہ کیا اور کہا : کیا جعفر ابن محمد کی نظیر مل سکتی ہے؟مالک ابن انس کہتے ہیں کہ جعفر صادق جیسا نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے  دل میں یہ خطور حدیث عشق...ادامه مطلب
ما را در سایت حدیث عشق دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : latifkachuravi بازدید : 109 تاريخ : شنبه 10 دی 1401 ساعت: 14:50

امام حسن عسکری علیہ السلام کا اسحاق کندی اور جاثلیق نصرانی کو جوابتحریر:محمد لطیف مطہری کچوروی اسحاق کندی عراق کے دانشوروں اور فلاسفہ میں سے تھا اور لوگوں میں علم،فلسفہ اور حکمت کے میدان میں شہرت رکھتا تھا لیکن اسلام قبول نہیں کرتا تھااور اُس نے اپنی ناقص عقل سے کام لیتے ہوئےفیصلہ کر لیا کہ قرآن میں موجود متضاد و مختلف امور کے بارے میں ایک کتاب لکھے کیونکہ اُس کی نظر میں قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہیں رکھتے ہیں اور ان کی تطبیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں(نعوذ باللہ)ناہم آہنگی پائی جاتی ہے اس لیے اُس نے سوچا کہ ایسی کتاب لکھے جس میں وہ یہ ثابت کرے کہ قرآن میں تناقض اور ضد و نقیض چیزیں پائی جاتی هیں، اس کے لکھنے میں وہ اس قدر سرگرم هوا کہ لوگوں سے الک تھلگ هوکر اپنے گھر کے اندر ایک گوشہ میں بیٹھ کر اس کام میں مصروف هوگیا، یهاں تک اس کا ایک شاگرد، امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب هوا، امام نے اس سے فرمایا: کیا تم لوگوں میں کوئی ایک عقلمند اور باغیرت انسان نہیں هے جو اپنے استاد کو دلیل و برہان کے ساتھ ایسی کتاب لکھنے سے روک سکے اور اُسے اس فیصلے پر پشیمان کرسکے۔ اس شاگرد نے عرض کیا: هم اس کے شاگرد هیں اس لئے اعتراض نہیں کرسکتے ۔ امام نے فرمایا: کیا جو کچھ میں تم سے کہوں گا اس تک پہنچا سکتے هو ؟۔شاگرد نے کہا: هاں، امام نے فرمایا: اس کے پاس جاؤ اور وه جو کام کرنا چاهتا هے اس میں اس کی مدد کرو، پھر اس سے کہو استاد ایک سوال هے اگر اجازت دیں تو پوچھوں؟ جب وه تم کو سوال کرنے کی اجازت دے تو اس سے کہو: اگر قرآن کا بیان کرنے والا آپ کے پاس آئے (اور کہے کہ یہ میری مراد نہیں هے جو تم سمجھ رهے هو) کیا آپ یہ احتمال نہیں دیں گے کہ قرآنی الفاظ حدیث عشق...ادامه مطلب
ما را در سایت حدیث عشق دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : latifkachuravi بازدید : 104 تاريخ : شنبه 10 دی 1401 ساعت: 14:50

اس حدیث کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ امام علی علیہ السلام کے سچے عاشق کبھی گناہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتےہیں چہ جائیکہ یہ افراد گناہ انجام دیں لہذا امام علی علیہ السلام کی محبت اور ان سےعشق ،انسان کو گناہوں سے دور رکھنے کا بہترین عامل ہے۔تحریر: محمد لطیف مطہری کچورویامام علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہونے والی احادیث میں سے ایک حدیث جو مختلف طریقوں سے نقل ہوئی ہے اور شیعہ و سنی منابع میں موجود ہے۔یہ روایت ہے:(حُبُّ عَلِیٍّ حَسَنَةٌ لَا یَضُرُّ مَعَهَا سَیِّئَةٌ وَبُغْضُ عَلِیٍّ سَیِّئَةٌ لَا یَنْفَعُ مَعَهَا حَسَنَة) [۱] علی (ع) سے محبت کرنا ایک نیکی ہے جس کی موجودگی میں کوئی گناہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور علی سے دشمنی ایک ایسا گناہ ہے جس کی موجودگی میں کوئی بھی نیکی فائدہ نہیں دیتی ہے۔اس روایت کے بارے میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ کیا امام علی علیہ السلام کی محبت کی موجودگی میں کسی قسم کا کوئی گناہ نقصان اورضرر نہیں پہنچا سکتاہے اور کیا صرف امام علی علیہ السلام کی محبت ہی کافی ہے اور دوسرے اعمال کو بجا لانے کی ضرورت نہیں ہے؟آیت اللہ مرعشی نجفی رہ نے اپنی کتاب شرح احقاق الحق میں اس روایت کو تین طریقوں سے نقل کیا ہے اور ہر طرق میں کچھ سنی راوی موجود ہے۔یہ روایت عبداللہ ابن عباس، [۲] معاذ ابن جبل، [۳]انس ابن مالک [4] اور ابن عمر [5] سے متعدد سندوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔اگر ایک روایت متعدد سند کے ساتھ نقل ہو جائے تو یہی کثرت سند کے ساتھ نقل ہونا اس روایت کے معتبر ہونے اورمستفیضہ ہونے کا باعث بنتا ہےجس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ روایت بھی سند کے اعتبارسے معتبر ہے۔دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جو روایت مناقب اور فضائل کے بارے میں ہو تو اس روایت کی روایات کی سند حدیث عشق...ادامه مطلب
ما را در سایت حدیث عشق دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : latifkachuravi بازدید : 102 تاريخ : شنبه 10 دی 1401 ساعت: 14:50